FOREWORD FROM THE EDITOR-IN-CHIEF

Welcome to the 1st issue of 38th Volume of Al Idah. Taking this opportunity, I wish to congratulate its stalwart contributors and the dedicated staff for making it an X- category peer-reviewed international academic research journal.

As always we have made an effort to array diverse and pluralistic views addressing the contemporary issues locally, nationally and internationally from an Islamic perspective in the three sections of Al Idah i.e. English, Arabic and Urdu. The global pandemic has thrusted us into an unprecedented crisis. The Muslim Ummah is challenged by the global socio-economic and political changes along with the rest of the world. The global economy is in a flux and there is uncertainty everywhere. The Internet has changed the dynamics of the world. If on the one hand, the modern digitization of Islamic literature has made access to the scholarly material just a click away, on the other hand, there is a dangerous mingling of malpractices to corrupt the basics of religious beliefs, tamper with the originals and distort the original texts. We invite the scholars to probe this dilemma and offer viable solutions. There is a dire need of genuine research addressing to re-direct Ummah towards its original and initial glorious path. It is high time that the religious scholars should take the lead. They may not restrict and delimit themselves to day to day life issues but be a beacon house for Muslims.

At Al-Idah, we have always tried to promote the moderate and peace-loving face of Islam. Religion is an all-embracing phenomenon and there is nothing on Earth that goes exceptional to religion. Islam evokes the spirit of enquiry and research in mankind. Our religion Islam invites all to explore from the cosmic realities to the unfathomable depths of oceans in a scholarly way.

In the end I’d like to thank the contributors, editors and staff to make Al-Idah a success story. I pray to Allah for its future success. May Al Idah play a pivotal role in promoting the true Islamic teachings in the world. Ameen.   

 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته!

معروف تحقیقی  و تدریسی ادارہ شیخ زاید اسلامك سنٹر كا  ششماہی مجلہ "الایضاح" (جنوری – جون 2020ء)   بفضل خدا  شائع ہو چکا ہے۔ 1993 میں اپنے باقاعدہ افتتاح سے لے كر اب تك شیخ زاید سنٹر مختلف پروگرامز کے ذریعے بالخصوص  اہالیان پشاور اور بالعموم اہل پاكستان  كی رہنمائی كرتا رہا ہے ، اپنے تحقیقی پروجیكٹس میں ادارہ نے  عصرِ حاضر کے ابھرتے ہوئے چیلنجز ، ان کے پاکستان پر، خطے اور باقی دنیا پر اثرات کا احاطہ کیا ہے۔

اس شمارے كی خاص بات یہ ہے كہ   ہائیر ایجوكیشن كمیشن نے اپنی حالیہ میٹنگ منعقدہ 6 فروری 2020 میں  مجلہ "الإیضاح" كو  ایك درجہ ترقی دیتے ہوئے  اسے "ایكس" درجہ میں تسلیم كر لیا ہے ،  یہ خبر جہاں مجلہ "الإیضاح" كے مدیران ومعاونین كے لئے فخر و  حوصلہ افزائی كا باعث ہے وہیں  قارئین و  محققین كے لئے بھی  خوشی كا   سبب ہے۔  یہ تمام سفر محققین  كے تحقیقی تعاون كے بغیر ہرگز ممكن نہ تھا۔

  آج کے جدید دور میں انسانیت کو درپیش مشکلات اور چیلنجز کا تجزیہ کرنے اور ان کا حل تلاش کرنے کے لئے سائنسی طریقہ کار کے تحت تحقیق اور مباحثوں نے بہت اہمیت حاصل کرلی ہے، اس كے ساتھ ساتھ  قرآن وتفسیر  ،حدیث و اصول حدیث ، فقہ و اصول فقہ  كی جدید مباحث پر بھی خامہ فرسائی ضروری ہے ، الایضاح كے حالیہ مجلہ میں انہی  مباحث و تحقیقات كو زیر بحث لایا گیا ہے ۔ یہ شمارہ بھی حسب سابق عربی ، اردو اور انگریزی زبان كے تحقیقی مقالات پر  مشتمل ہے  جس میں  وطن عزیز  كے محققین كے مقالات كے ساتھ ساتھ ایك بڑی تعداد میں بین الاقوامی اہل علم و دانش  کے علمی اور تحقیقی مقالات  عمیق انداز  میں  چھان بین، تحقیقی جائزہ    اور خارجی تبصروں   كی روشنی میں  ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے مجوّزہ سٹینڈرڈز کے مطابق مرتب کئے گئے ہیں تا کہ اِسے عالمی معیار کا بہترین تحقیقی جریدہ بنایا جا سکے۔

امید ہے کہ اس جریدے میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالہ جات محققین كے لئے تحقیق كے نئے در وا كریں گے ، اور انہیں نئی جہات سے روشناس كروائیں گے، محققین  کی طرف سے موصول ہونے والے مقالات میں سے معیاری مقالات کا انتخاب ہمارے لیے بھی امتحان ہوتا ہے اور ماہرین کے لیے بھی۔ جیسا کہ اس شمارے کے لیے بھاری تعداد میں ملكی و بین الاقوامی سطح كے  تحقیقی  مقالات  موصول ہوئے تھے لیکن اس میں سے صرف  17  مقالات منتخب کیے جاسکے، جو آپ كی خدمت میں پیش كر دئے گئے ہیں ۔جن میں سے عربی كے (7) ، اردو كے  (4) اور انگریزی كے (6) مقالات شامل ہیں۔

مجلہ كا پہلا تحقیقی مقالہ  افغان یونیورسٹی  كابل (افغانستان) كے  وی – سی  ڈاكٹر نصر من اللہ صاحب كا

" قواعد الترجيح التفسيرية المتعلقة بلغة العرب عند الشيخ القنوجي "

سے متعلق ہے ،  جس میں محقق نے شیخ صدیق حسن قنوجی رحمہ اللہ نے  كی  تفسیر  " فتح البیان في مقاصد القرآن " میں تعارض اقوال كی صورت میں   مختلف قواعد ترجیح كی طرف التفات ركھا ہے ،  خصوصاً ان قواعد كو زیر بحث لایا ہے جو عربی لغت و گرامر سے متعلق ہیں ۔اس كے ساتھ ساتھ شیخ قنوجی كے منہج كو بھی  پركھا گیا ہے كہ وہ كس حد تك اپنی رائے میں درست ثابت ہوئے ہیں ۔

دوسرا مقالہ بین الاقوامی   اسلامی  یونیورسٹی اسلام آباد  كی لیكچرر  ڈاكٹر رابعہ نور كا

" ترجيحات الإمام المودودي -رحمه الله- في تفسيره تفهيم القرآن"

سے متعلق ہے ، جس میں  فاضل محققہ نے مولانا مودودی رحمہ اللہ  کی تفسیر "تفہیم القرآن" کی سورة بقرة   كی چند آیات میں ذكر كئے گئے مفسرین كے مختلف  اقوال میں  سے  مولانا  رحمہ اللہ كی چند ترجیحات كو  بطور نمونہ پیش کیا  ہے ، چاہے وہ کسی لفظ کے معنی سے متعلق ہو یا مکمل آیت کے معنی سے متعلق ہو،اور قواعد ترجیح کی روشنی میں راجح رائے کی نشاندہی کی  گئی ہے۔

تیسرا مقالہ   ڈاكٹر  محمد عمران و ڈاكٹر محمد   انور كی مشتركہ كاوش كا نتیجہ ہے جو  كہ

" الأسانيد التي أخطأ فيها الإمام سفيان بن عيينة"

سے متعلق ہے ، مذكورہ مقالہ میں   امام سفیان بن عیینہ كے اسانید  حدیث میں واقع اوہام و اغلاط كی نشاندہی كی گئی ہے ۔

اگلا مقالہ  ڈاكٹر احسان اللہ صاحب اور پروفیسر ڈاكٹر تاج الدین  أزہری صاحب  كی مشتركہ تحقیق كا نچوڑ ہے جو كہ

" عقوبة التعدي على الأنفس وأثرهافي استتباب الأمن"

سے متعلق ہے ، جس میں انہوں نے اسلام  كی  انسانی نفس كی حفاظت  كیلئے   مقرر كردہ سزاؤں پر تفصیلی بحث كی ہے۔اور ثابت كیا ہے كہ اگر  كسی بھی معاشرے میں اسلامی سزاؤں كو نافذكیا جائے  تو یقینا اس معاشرے كو امن کی ضمانت مل جاتی ہے۔

اگلا مقالہ  جامعہ ظفار  -  سلطنت عمان كے پروفیسر  ڈاكٹر حسین احمد علوی كا

"قول الصحابي عند الإمام الشافعي "

 سے متعلق ہے ،  جس میں فاضل محقق نے   اصول فقہ كی اہم ترین مبحث "قول صحابی" كے بارے میں امام شافعی كے موقف كو واضح كیا ہے۔

چھٹا  مقالہ  سعودی عرب كی  امام عبد الرحمن بن فیصل یونیورسٹی كے پروفیسر  ڈاكٹر  محمد عبد الرزاق الأسود كا ہے جس كا عنوان

"علاج مشكلات اللجوء في ضوء لجوء الصحابة"

ہے ، جس میں موصوف محقق نے  صحابہ كرام كی سیرت كو موضوع بحث بنا كر  مسلمانوں كو موجودہ مشكلات سے نكالنے كا علاج واضح كیا ہے۔

اسلامی عقائد میں  "لوح محفوظ " سے متعلق مباحث ابتداء سے ہی معركہ الآراء موضوعات رہے ہیں ، اسی موضوع كو زیر بحث لا كر "اللوح المحفوظ"   كے عنوان سے فلسطین كی جامعہ غزہ كے پروفیسر ڈاكٹر حسن نصر بظاظو نے  داد تحقیق سمیٹی ہے۔

حصہ اردو میں جامعہ عبد الولی خان مردان كے  پروفیسر ڈاكٹر ابظاہر خان  اور ریسرچ سكالر محمد ایوب نے

"فلاحی ریاست میں عہدہ داروں کے چناؤکا معیار"

  میں سیرت طیبہ كی روشنی میں ان معیارات و أصول  كو بخوبی زیر بحث لایا ہے، اور عہد ہ داروں کے تقرر کا طریقہ کار شریعت اسلامی کی روشنی میں وضاح كیا ہے ۔

حصہ اردو كا دوسرا مقالہ  جامعہ ملاكنڈ كے ریسرچ سكالر  ثناء اللہ اور ڈاكٹر بادشاہ رحمٰن   كی تحقیق ہے جو كہ

" تقیہ" كی اصطلاح اور علامہ آلوسی كا مؤقف"

 كے عنوان پر مشتمل ہے ،  جس میں انہوں نے علامہ ألوسی كی   مشہورزمانہ  تفسیر  روح المعانی سے ان كے موقف كو سامنے لایا ہے۔

قرآن مجید احکام و عقائد کے ساتھ ساتھ عربی زبان اور بلاغت کا ایک حیران کن شاہکار ہے۔اگلا مقالہ اسی موضوع سے متعلق جامعہ پشاور كے شعبہ عربی كے ریسرچ سكالر سلیم خان صاحب اور  شعبہ عربی كے پروفیسر ڈاكٹر سید الحسنات  كی تحقیقی كاوش بعنوان

"قرآن مجید میں ”أمثال کامنہ“ کی حیثیت "

ہے جس میں انہوں نے  قرآن كریم میں امثال كامنہ كی حیثیت پر بحث كی ہے۔

ملك خداداد كے معروف مایہ ناز  محقق اور اپنے مخصوص انداز كی حامل شخصیت  پروفیسر   ڈاكٹر سید باچہ آغہ صاحب نے

"دینی مدارس میں عصری علوم اورانگریزی زبان کی تعلیم کا جائزہ"

كے عنوان كے تحت دینی مدارس كی اس موضوع سے متعلق   كی گئی  سرگرمیوں پر  داد تحقیق سمیٹی ہے۔

حصہ انگریزی كے مقالات میں گومشان یونیورسٹی – تركی  كے فاضل پر وفیسر ڈاكٹر عالم خان نے 

"Dating of Isnād and Western Scholarship,"

 كے تحت  سند حدیث سے متعلق جدید استشراقی فكر كو موضوع بحث بنایا ہے۔اس مقالہ میں اسناد کے ظہور کی تاریخ اور مستشرقین کے نظریات کا مستند تاریخی حقائق کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے۔

اگلا تحقیقی مقالہ   بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد كے  لیكچرر حمید اللہ رضوان كی تحقیقی كاوش ہے جس میں انہوں نے 

" Shaybānī’s Notion of Authority of Awarding Amān"

 كے عنوان كے تحت  بحث كی ہے ،  بین الاقوامی اسلامی قانون غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے اسی تناظر میں بین الاقوامی اسلامی قانون کے بانی محمد بن الحسن الشیبانی كے موقف كو زیر بحث لایا گیا ہے ۔

حصہ انگریزی كا تیسرا تحقیقی موضوع بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد كے پروفیسر ڈاكٹر عطاء اللہ وٹو اور غفران صاحب كا ہے جو كہ 

" The Role Of Islamic Courts In Land Reforms In Pakistan"

 كے عنوان كے تحت ہے، جس میں انہوں نے پاکستان میں ملکیت زمین کی اصلاحات میں اسلامی عدالتوں کے کردار پر سیر حاصل  تحقیق كی ہے ، اور اس ضمن میں اسلامی عدالتوں کے نتائج کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

فرانس میں پچھلی چند دہائیوں سے فرانسیسی حکومت نے ایسے قوانین پاس کیے جن کا مقصد عوامی مقامات پر مذہبی علامات کا استعمال ختم کرنا ہے۔  مذكورہ مقالہ میں پروفیسر ڈاكٹر  عامر رضا اور پروفیسر ڈاكٹر رشید احمد صاحب نے 

" Islamic Headscarf Controversy in France"

كے عنوان كے تحت فرانسیسی حکومت  كے اسکولوں میں حجاب اوڑھنے پر پابندی كے بارے میں تحقیق كی ہے یہ آرٹیکل ان  اختلافات کی تاریخی پس منظر، طرفین کے دلائل اور حجاب کے مذہبی حوالوں پر بحث کرتا ہے۔

اگلا تحقیقی مقالہ

"The Role of Traditional Elders in the Establishment of the law and order in FATA, PAKISTAN"

 كے عنوان كے تحت  زرعی یونیورسٹی پشاور  كے پروفیسر ڈاكٹر انتخاب عالم اور جامعہ پشاور كے ریسرچ سكالر   شاہد اقبال صاحب كا ہے جس میں انہوں نے  فاٹا میں قانون كی پاسداری كروانے میں بزرگان قوم كے كردار پر تحقیق كی ہے۔

حصہ انگریزی  میں سے آخری مقالہ 

"A Comparative Study of Western and Islamic Concept of Human Rights:"

كے عنوان كے تحت  پروفیسر ڈاكٹر عبد المنان صاحب نے   انسانی حقوق كے متعلق  مغربی اور  اسلامی موقف كا مقارنہ كیا ہے۔

مقالات کا انتخاب خالص معیار کو مدنظر رکھ کر کیا گیا  ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ موضوعات میں تنوع اور جدت کو برقرار رکھا جائے۔  امید ہے کہ الایضاح کا یہ شمارہ بھی اہل علم کو ضرور پسند آئے گا۔

الایضاح کا مقصد متعلقہ امور  پر مکمل آزادی کے ساتھ تحقیق اور بحث ومباحثہ کرنا اور غیر جانبدرانہ تجزیوں کی  روشنی میں مختلف دینی وقومی  معاملات میں لائحہ عمل پیش کرنا ہے ، تاکہ مقننہ ، عدلیہ، انتظامیہ  اور دوسرے ریاستی ادارے ان تحقیقات کی روشنی میں ملک وقوم کے مفاد میں پالیسی سازی کے لیے  رہنمائی لےسکیں۔

مجلس ادارت  اپنے ان تما م مقالہ نگاروں اور الایضاح کی تیاری میں علمی او ر تکنیکی لحاظ سے معاونت کرنے والے افراد کی مشکور ہے  ۔ جنہوں نے اس علمی کام میں اپنا حصہ ڈالا  اور امید کرتے ہیں کہ ان کا یہ تعاون ہمارے ساتھ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ 

مجلس ادارت مجلہ کے بارے میں قارئین کرام کی آراء کو اہمیت دیتی ہے  اور اس کے علمی او رفنی معیار کو بہتر سے بہترین کی تلاش  میں  تنقیدی آراءاور مفید مشوروں  کا  خیر مقدم کرتی ہے ۔

 

                                                                                                                                ایڈیٹر  "الایضاح"

                                                                                                                        پروفیسر ڈاكٹر رشاد احمد سلجوق

 

Published: 2020-06-30

Articles